قسم خدا کی اسے میسر کبھی خدا کی رضا نہیں ہے
ہے بوجھ دھرتی پہ اس کا جینا جو عاشق مصطفیٰ نہیں ہے
خلیل و عیسیٰ کلیم و آدم کوئی نہیں ہیں ہمارے ہمدم
بجز تمہارے شفیع محشر کسی کا بھی آسرا نہیں ہے
تو بے سہاروں کا ہے سہارا ہے تجھ پہ ہر غیب آشکارا
ہمارا حال خراب بھی تو تری نظر سے چھپا نہیں ہے
مرے تصور میں ارض طیبہ مری نگاہوں میں حسن خضری
دعا جو مانگوں تو کیا میں مانگوں بتا مرے پاس کیا نہیں ہے
نبی کو کہتا ہے اپنے جیسا سمجھ لیا تو نے ایسا ویسا
خدا نہیں ہے مرا محمد مگر خدا سے جدا نہیں ہے
ہر اک خوشی لیکے کیا کریگا وہ زندگی لیکے کیا کریگا
کہ جس کی قسمت میں میرے مالک مدینے جانا لکھا نہیں ہے
کرم ہے ” مصباح ” پہ نبی کا کہ منہ دھواں ہے جو تیرگی کا
غموں کی تند آندھیوں میں رہ کر چراغ دل کا بجھا نہیں ہے