لٹ گیا باغ علی مرتضی پردیس میں
چھن گئی زینب کے سر سے بھی ردا پردیس میں
اس لئے ہے پانی پانی شرم سے نہر فرات
پیاس سے بیتاب ہے آل عبا پردیس میں
قافلہ سالار جس کا مالک کونین ہے
بے کس و مجبور ہے وہ قافلہ پردیس میں
کیا ہے مفہوم عبادت یہ سمجھ میں آگیا
زیر خنجر شہ نے جب سجدہ کیا پردیس میں
دیکھتی ہی رہ گئی صغری غبار کارواں
دیس سے جس دم چلا ہے قافلہ پردیس میں
ان گنت تھی کربلا میں کوفی و شامی سپاه
اہل بیت پاک کا کوئی نہ تھا پردیس میں
امت احمد پہ یہ احسان ہے شبیر کا
دیں بچایا اپنا کٹوا کر گلا پردیس میں
فرض کا احساس بھائی کی وصیت کا خیال
اور تنہا زینب حرما زده پردیس میں
آگیا جس دم نظر محضر محرم کا ہلال
پھر کسی لمحہ نہ میرا دل لگا پردیس میں