مقدر سے کبھی پہونچے جو ہم خضرا کے سائے میں
کریں گے نعت آقا کی رقم خضرا کی سائے میں
وہاں جا کر سب اپنے آپ کو خود بھول جاتے ہیں
کہاں کا درد کیسے رنج وغم خضرا کے سائے میں
میرے آقا کی قربت کا کوئی اعجاز تو دیکھے
صداقت اور عدالت میں بہم خضرا کے سائے میں
چلو اے زائرو ! ایسے کہ آہٹ بھی نہ ہو پائے
میں آسودہ شہنشاہ امم خضرا کے سائے میں
اسی کی رحمتیں ہم پر گھٹائیں بن کے چھائی ہیں
بکھیرے ہے جو زلف خم تخم خضرا کے سائے میں
خدایا آرزو یہ ہے ہمیں تعبیر مل جائے
ہے دیکھا خواب میں حاضر ہیں ہم خضرا کے سائے میں
فلک حیرت سے جھک جھک کر یہ منظر دیکھتا ہو گا
کیے روح الامیں ہیں سر کو خم خضرا کے سائے میں
در آقا ملا جس کو تو سب کچھ پالیا اس نے
پہونچ کر مانگتی کیا چشم نم خضرا کے سائے میں
یقینا مل گیا” مصباح” اس کو مقصد ہستی
وہ خوش قسمت ہے ٹوٹا جس کا دم خضرا کے سائے میں