میں ہوں بیمار مجھے بس یہ دوا کافی ہے
چادر قطب دو عالم کی ہوا کافی ہے
کیوں میں دنیا کے مسیحاؤں کے چکر میں پڑوں
آپ کے در کی مجھے خاک شفا کافی ہے
تاج شاہی کی طلب ہے نہ ہے دولت کی تلاش
میں مداری ہوں مجھے رب کی رضا کافی ہے
قبر کے سخت اندھیروں کو مٹانے کے لئے
نسبت قطب دو عالم کا دیا کافی ہے
آٹھ سو پیر بجھا پائے نہ مخدوم کی پیاس
جب ملا فیض ترا بول اٹھا کافی ہے
کیوں چراغوں کی ضرورت ہو حرم کو تیرے
مرقد نور کے پرتو کی ضیا کافی ہے
یہ کسی کا نہیں مرہونِ کرم قطب جہاں
تیرے مصباح کو فیضان ترا کافی ہے