madaarimedia

نکاح پڑھانے اور نذرانے کا حق

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید اور بکر دونوں الگ الگ مسجدوں کے امام ہیں، دونوں مسجدوں کا محلہ اور حلقہ بھی ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ہمارے یہاں پر ایک مسجد کے حلقہ میں جتنے گھر آتے ہیں ان گھروں میں اگر کوئی نکاح ہوتا ہے تو اس نکاح کو پڑھانے کا حق اور اس نکاح میں ملنے والے نذرانے کا حق اس حلقے کی مسجد کے امام صاحب کا ہوتا ہے ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید جس مسجد کا امام ہے اس مسجد کے حلقہ میں ایک نکاح ہوا جو کہ بکر نے پڑھادیا اور اس میں نلنے والے نذرانے پر بھی بکر ہی قابض ہوگیا اب بکر کے لئے حکمِ شرعی کیا ہے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں ۔ بینوا توجروا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
قرآن و حدیث میں حقوق کی ادائی کی انتہائی سختی کے ساتھ تاکید کی گئی ہے، حقوق کی دو قسمیں ہیں۔
حقوق اللہ: یعنی اللہ تعالی کے حقوق جیسے نماز، روزہ اور زکوۃ وغیرہ ۔ اور

حقوق العباد: یعنی بندوں کے حقوق جو آپس میں ایک دوسرے کے ذمے ہوتے ہیں۔
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں حقوق العباد کی ادائیگی کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ فقہاء نے اس کے پیش نظر حقوق العباد کو حقوق ﷲ پر مقدم فرمایا ہے۔
یہاں یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ اپنے حقوق وصول کرتے ہوئے، دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں کمی کوتاہی کرنے سے اس گناہ کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے، اس لیے اس کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے حقوق بھی وصول نہیں کرتا ہے اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں بھی کمی کوتاہی کرتا ہے تو وہ بھی گناہ گار ہے مستحق عذاب نار ہے۔ کیوں کہ ہر شخص کو اپنے حقوق حاصل کرنے کا مکمل اختیار ہے ، اب اگر وہ اپنے حقوق سے خود ہی دست بردار ہے ، تو اسے دوسروں کے حقوق تلف کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے انسان کو ہر صورت میں دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی فکر کرنا ضروری ہے۔

اسی لئے اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے
وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ۔الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُون۔وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ۔ أَلَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُمْ مَبْعُوثُون۔لِيَوْمٍ عَظِيمٍ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ۔( پ عمّ ’ سورۃ المطففین)
یعنی “بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی ۔کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔ کیا انہیں اپنے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا خیال نہیں۔اس عظیم دن کے لئے۔ جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے”۔
وَ مَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہُ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَہُ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا وَ لَہُ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ۔ (النساء)
یعنی :” اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا اُسے ﷲ تعالیٰ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسا عذاب ہو گا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا”۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمان سے حقوق العباد کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اور حدیث شریف میں ہے
عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال- قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: من کانت لہ مظلمۃ لاخیہ من عرضہ او شئی فلیتحللہ منہ الیوم قبل ان لا یکون دینار و لا درہم ان کان لہ عمل صالح أخذ منہ بقدر مظلمتہ وان لم تکن لہ حسنات اخذ من سیئات صاحبہ فحمل علیہ۔ (صحیح البخاری-ج1/ص331)
یعنی:” حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے کسی بھائی پر ظلم و زیادتی کی ہو، اس کی آبرو ریزی کی ہو، یا کسی دوسرے معاملے میں حق تلفی کی ہو، تو اس کو چاہیے کہ آج ہی اس کو معاف کروالے، اس دن کے آنے سے پہلے جس دن نہ دینار ہوگا اور نہ درہم ، اگر ظالم کے پاس کوئی نیک عمل ہوگا تو اس نے اپنے بھائی پر جتنا ظلم کیا ہوگا اس کے بقدر نیکیاں مظلوم ساتھی کو دے دی جائیں گی اور اگر ظالم کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو پھر مظلوم کے گناہ اس ظلم کے برابر ظالم کے اوپر ڈال دیے جائیں گے”۔

ان تمام قرآنی آیات اور حدیث مبارک کی روشنی میں حقوق العباد کی اہمیت کا اندازہ اچھی طرح لگایا جاسکتا ہے۔ یعنی ہر وہ شخص جس نے کسی کا حق مارا ہے، اُسے جب تک اُس کا حق نہ لوٹا دیا جائے، اُس وقت تک بارگاہ الٰہی سے معافی کی قطعی امید بے سود ہے۔ حقوق ﷲ تو رحمت الٰہی سے معاف ہوسکتے ہیں لیکن مخلوق کے ساتھ حق تلفی پر ﷲ تبارک و تعالیٰ کا سخت عذاب ہے۔

ہمارے ملک ہندوستان میں متعدد علاقے ایسے ہیں جہاں پر ائمہ مساجد کی تنخواہوں کے ساتھ ساتھ مسجد کے حلقہ میں ہونے والے نکاح اور اس میں ملنے والی رقم بھی مسجد کے امام کا حق قرار دی جاتی ہے کیونکہ امام مسجد کی تنخواہ قلیل ہونے کے باعث اراکین و انتظامیہ اہل محلہ کی رضامندی سے امام مسجد کی سہولیات کے لئے ایسا کرتے ہیں جو کہ امامِ مسجد کے حق میں بہترین عمل ہے ۔ اور یہ اراکین و انتظامیہ کا فرض بنتا ہے کہ ائمہ مساجد کی تنخواہوں میں اضافے کریں یا ایسے ذرائع بنائیں جس سے امام کی آمد میں اضافہ ہو تاکہ اس مہنگائی کے دور میں اچھے سے گزر اوقات ہو سکے اور امام مسجد اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سرانجام دے سکے ۔
بصورت مسئولہ اگر واقعی مسجد کے حلقہ میں ہونے والے نکاح اور اس میں ملنے والی رقم پر اراکین و انتظامیہ کی جانب سے اور اہل حلقہ کی رضامندی سے امام مسجد کا حق قرار دیا گیا ہے تو بکر نے زید کی حق تلفی کی ہے ۔ پس بکر کے لئے لازم ہے کہ وہ زید کا حق ادا کرے یا زید سے اس کو معاف کرالے ورنہ سخت گناہ گار ، سزاوارِ قہر قہار ، مستحق عذاب نار ہے ۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

کتبہ
محمد عمران کاظم مصباحی المداری مرادآبادی
خادم:- الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند
18/ جنوری. 2022 عیسوی مطابق 14/ جمادی الآخر 1443ہجری بروز منگل ۔

الجواب صحیح والمجیب نجیح
فقط سید نثار حسین جعفری المداری نادر مصباحی مکن پور شریف کان پور نگر یو پی الہند
خادم الافتاء : الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند ۔

Leave a Comment

Related Post

Top Categories