نہیں ہے یوں تو کسی کا جواب ناممکن
مگر جواب رسالت مآب نا ممکن
اٹھائیں آپ جو انگشت پاک سوئے فلک
دو نیم ہونا دل ماہتاب ناممکن
حضور ہی تھے جو یہ منزلیں گزار گئے
وہ ذکر و فکر وہ عہد شباب ناممکن
یہ جان کر کہ رضائے نبی ہے مرضئ حق
نہ ابھرے ڈوبا ہوا آفتاب نا ممکن
کوئی بھی سرور عالم کا چاہنے والا
پھرے جہاں میں بحالِ خراب ناممکن
بہ یک نگاہ جو لائے تھے سرور عالم
اب آئے ایسا کوئی انقلاب نا ممکن
لئے ہے گوشۂ دامان مصطفیٰ سر پر”
ادیب اور غم روز حساب ناممکن