نیاز عشق بھی اور ناز دلربائی بھی
عجیب چیز ہے یہ شانِ مصطفائی بھی
قدم پہ جھک گئی شاہوں کی کج کلاہی بھی
تها دیدنی تیرا اعجاز بے نوائی بھی
بہت کہا تو بشر کہہ کے ہو گیا خاموش
جو تیری ذات کسی کی سمجھ میں آئی بھی
قیود حسن کے خود اپنے ہاتھ سے توڑے
بڑے غضب کی ہے یہ لذت جدائی بھی
وہاں بھی رحمت عالم کا فیض جاری ہے
جہاں پہ فکر بشر کی نہیں رسائی بھی
یہ مرتبہ نہیں حاصل کسی کو تیرے سوا
خدا بھی تیرا ہے تیری ہے سب خدائی بھی
رسول پاک کو دیکھو عمل کے میداں میں
جو بات منہ سے نکالی وہ کر دکھائی بھی
نگاه رحمت عالم ہے عاصیوں کے لیے
ادیب” کتنی مصیبت ہے بے گناہی بھی