وہ حامی ہے جو سید مکی مدنی ہے
نازاں ہیں گنہگار کہ اب بات بنی ہے
کونین پہ انوار کی سایہ فگنی ہے
وہ آتا ہے جس کے لئے دنیا یہ سجی ہے
غلطاں صدف نور مین در عدلی ہے
دندان مبارک ہیں کہ ہیرے کی کنی ہے
سرکار جو گزریں تو مہک جائیں وہ گلیاں
کیا گلبدنی گلدنی گلدنی ہے
نادم رخ زیبا سے جمالِ گل رنگیں
شرمنده قد پاک سے سرو چمنی ہے
آقا کے پینے سے معطر ہوئیں نسلیں
تاثیر کہاں تجھ میں یہ مشک ختنی ہے
ٹوٹی سی چٹائی پہ ہیں قونین کے مالک
اور دوش مبارک پر روائے یمنی ہے
رس گھول دیا تلخئ حالات میں جس نے
اعجاز رسالت ہے کہ شیریں سخنی ہے
جبریل بھی ہیں غاشیہ برداری پہ نازاں
کیا رتبۂ عالی ترا اللہ غنی ہے
بے اصل نظر آتی ہے سورج کی تمازت
اے گنبد خضریٰ تری وہ چھاؤں گھنی ہے
آغوشِ رسالت میں جگہ پائی ہے جس نے
یہ سوچئے وہ کتنا مقدر کا دھنی ہے
ہے دیدۂ و نادیدہ سبھی ان کے فدائی
رومی حبشی فارسی کوئی یمنی ہے
آئے جو ترس ساقی مری تشنہ لبی پر
وہ دیدے جو سرکار کی جالی سے چھنی ہے
پایا ہے ادیب ” آقا سے مدحت کا یہ انعام
سر پر مرے اک چادر رحمت سی تنی ہے