وہ کیسے سمجھیں جو محروم رتبہ دانی ہے
در مدار ولایت کی راجدھانی ہے
ہے ان کی ذات پہ دار و مدار عالم کا
انہیں کے ہاتھ میں دنیا کی پاسبانی ہے
وہ تیرا طرز ہدایت تھا اے مدار جہاں
جہان کفر ہوا جس سے پانی پانی ہے
مرے مدار نے بخشا ہے ہند کو ایماں
نہ مانے جو اسے یہ اس کی بے ایمانی ہے
ملا ہے جب سے ترا در ہماری ہستی کا
ہر ایک لمحہ حسیں ہر گھڑی سہانی ہے
سلام کرتی ہے سورج کی ہر کرن جسکو
رخ مدار جہاں میں وہ ضو فشانی ہے
مہک رہا ہے فضاؤں میں آج بھی آقا
ہر ایک لفظ ترا جیسے رات رانی ہے
جو آپ سن لیں تو مصباح کو ملے تسکین
حضور اسکی بڑی دکھ بھری کہانی ہے