پڑے زمین پہ جس دم مرے نبی کے قدم
اکھڑ گئے ہیں زمانے سے تیرگی کے قدم
جو آپ آئے ملا اس کو حوصلہ ورنہ
تھے لرزاں خوف امارت سے مفلسی کے قدم
جو سر پہ رکھے ہو نعلین پاک آقا کی
نہ کیسے چومے فلک اس کی برتری کے قدم
نبی کے نقش قدم ہی بہت ہیں میرے لئے
میں چومتا پھروں دنیا میں کیوں کسی کے قدم
وہاں سے طے کیا خیر البشر نے اصل سفر
جہاں پہ تھک گئے جا کر فرشتگی کے قدم
کمال صدق و صفا کا چھڑے جو ذکر کبھی
ادب سے چوم لو سلمان فارسی کے قدم
جنون عشق نبی نے لیا سنبھال انہیں
جو ڈگمگانے لگے ہوش و آگہی کے قدم
جو ہوں نگاہ میں اس کی فضائل غربت
تو سر پہ رکھ لے غنا فقر بوذری کے قدم
ہیں سر بلندیاں تقدیر بن گئیں اس کی
ہوئے نصیب جو ” مصباح ” کو ولی کے قدم