کچھ اور اس کو سجھئے وہ آدمی کیا ہے
جسے پتہ ہی نہیں الفت نبی کیا ہے
مجھے یقین ہے میں کچھ بھی کہہ نہ پاؤں گا
اگر حضور یہ پونچھیں تری خوشی کیا ہے
بڑے گا شوق حضوری کچھ اور اے زائر
ابھی تو دور ہے طیبہ سے تو ابھی کیا ہے
بچھڑ گیا ہے یہ شاید کوئی مدینہ سے
ہر اک سے پوچھتا پھرتا ہے زندگی کیا ہے
ہوا طلوع وہیں سے ہے دین کا سورج
ثبوت غار حرا دے گا روشنی کیا ہے
مدینے پہنچا تو محسوس یہ ہوا مجھ کو
ہر ایک شئے یہاں اپنی ہے اجنبی کیا ہے
سبق یہ مل گیا خلق محمدی سے ہمیں
کہ اک پڑوسی سے انداز دوستی کیا ہے
رکھے ہوئے ہوں میں نعلین مصطفیٰ سر پر
یہ مجھ سے پوچھو کہ تاج شہنشہی کیا ہے
کشود راه ہدایت کا ہے ذریعۂ خاص
جہاں میں چاروں صحابہ کی پیروی کیا ہے
سفر مدینے کا کرنے کے بعد ہی تو ادیب”
پتہ یہ چلتا ہے اخلاص باہمی کیا ہے