کیا مرتبہ اعلی ترا خضرا کے مکیں ہے
تلوا ترا بوسہ گہ جبریل امیں ہے
آقا ترے کردار کی تماثیل نہیں ہے
تو عرش بہ داماں ہے مگر خاک نشیں ہے
اللہ وہ خضرا کا سرا پائے حسیں ہے
یا خاتم وحدت پہ بجلی کا نگیں ہے
ذرے ہیں کہ بہتا ہوا اک نور کا ساغر
کس درجہ منور وہ مدینے کی زمیں ہے
دیکھوں گا کبھی گنبد خضرا کا تحمل
مجھ کو بھی وہ بلوائیں گے یہ دل کو یقیں ہے
ہیں یوں تو زمانے میں بہت ان کے فدائی
ثانئیِ بلالِ حبشی کوئی نہیں ہے
دل میں غم سر کار تصور میں مدینہ
سب کچھ تو ہے کیا چیز مرے پاس نہیں ہے
حسرت ہے کہ ہم دیکھ لیں طیبہ کی وہ گلیاں
“مصباح” ہر اک ذرہ جہاں ماہ جبیں ہے