گنبد یہ ترا گنبد خضری سا لگے ہے
ہم کو تو مکپور مدینہ سا لگے ہے
اخلاق کی خوشبو سے معطر ہیں فضا میں
بیگانہ بھی آکر یہاں اپنا سا لگے ہے
وہ صوم دوام اور وہ اک جامۂ نوری
ہر ایک عمل تیرا عجوبہ سا لگے ہے
دیکھو تو ذرا شیخ محمد کی نظر سے
پیکر مرے سرکار کا کعبہ سا لگے ہے
دکھیوں کو شفا بانٹتا پھرتا ہے جہاں میں
بیمار ترا ایک مسیحا سا لگے ہے
وہ دریا جسے کہتا ہے ایسن یہ زمانہ
سرکار کے فیضان کا چشمہ سا لگے ہے
اسلاف کے کردار کو سب بھول گئے ہیں
دیکھو جسے وہ طالب دنیا سا لگے ہے
مصباح ہیں پھیلے ہوئے اس درجہ اجالے
ہر شام یہاں نوری سویرا سا لگے ہے