ہم نے تقدیر سے وہ شمع حدا پائی ہے
جس سے آئینۂ فطرت نے جلا پائی ہے
ان کے لب ہیں کہ گل قدس کی پنکھڑیاں ہیں
جن سے پھولوں نے تبسم کی ادا پائی ہے
ان کے چہرے کی چمک سے ہوا سورج روشن
اور برسات نے زلفوں سے گھٹا پائی ہے
رشک کرتا ہے مقدر پہ ہمارے سورج
ہم نے طیبہ کے اجالوں سے ضیا پائی ہے
اسکی تقدیر مہکتی ہے گلابوں کی طرح
جس نے صحرائے مدینہ کی ہوا پائی ہے
با خدا مانگا ہے بس عشق محمد میں نے
جب بھی اللہ سے توفیق دعا پائی ہے
اس پہ مصباح ” نچھاور مرا سرمایۂ فن
نعت گوئی کے عوض جس نے ردا پائی ہے