یزید کرتا ہے دیں کا سودا چلو مدینے سے کربلا میں
حسین کے دل میں ہے یہ جذبہ چلو مدینے سے کربلا میں
نہیں ہے کچھ جس کو پاس ایماں مٹانا جو چاہتا ہے قرآں
ہے ایسے ہاتھوں میں دیں کا جھنڈا چلو مدینے سے کربلا میں
حسین کہتے تھے راہِ حق میں نثار ہو گھر تو غم نہیں ہے
کیا تھا نانا سے ہم نے وعدہ چلو مدینے سے کربلا میں
خبر جو تھے جبرئیل لائے وہ راز بن کر حجاب میں ہے
ہے بناّ راہ خدا کا فدیہ چلو مدینے سے کربلا میں
ملا ہے نانا سے اذن ہم کو اٹھا ئیں دل پر ہر ایک غم کو
خدا ہے حافظ ہمارا سب کا چلو مدینے سے کربلا میں
پیوں شہادت کا جام ایسے جھکا ہو سر سامنے خدا کے
یہی مشیت کا ہے تقاضہ چلو مدینے سے کربلا میں
فریضۂ حج کے بعد جس دم نبی کے روضہ پہ حاضری ہو
ملے یہ محضر کو کاش مژده چلو مدینے سے کربلا میں