یہ تو آقا کی توجہ کا اثر لگتا ہے
ہر سفر اب مجھے طیبہ کا سفر لگتا ہے
جب سے سرکار نے قدموں سے نوازا ہے اسے
رشکک جنت ابو ایوب کا گھر لگتا ہے
ملنے والا ہے مجھے اذن حضوری کا پیام
مجھ کو آقا یہی اب شام و سحر لگتا ہے
کیوں فدا اس کی طہارت پہ نہ ہوں اہل صفا
قطرہ قطرہ تیرے دھون کا گوہر لگتا ہے
آپ کی ذرہ نوازی ہے مدینے والے
میرا گھر آپ کی یادوں کا نگر لگتا ہے
اس نے دیکھا نہیں شاید تیرے جلووں کا جمال
وہ جسے قبر کی تاریکی سے ڈر لگتا ہے
ذرے ذرے سے عیاں ہے یہاں سورج کی چمک
یہ تو اللہ کے محبوب کا در لگتا ہے
دیکھیے خون رسالت کی کرشمہ سازی
میرا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے
دیکھے مصباح بھی جا کر کبھی خضرا کا جمال
جس کی تابانی سے شرمندہ قمر لگتا ہے