جسکے دل میں بھی غم حسین کا ہے
اس کے سر پر کرم حسین کا ہے
چومتا آسماں ہے جھک جھک کر
کتنا اونچا علم حسین کا ہے
جیسی تقدیر چاہو لکھوالو
نظم لوح و قلم حسین کا ہے
سچ تو یہ ہے جہاں میں جو کچھ ہے
سب خدا کی قسم حسین کا ہے
دین فطرت کا ہے وجود ان سے
اصل ہستی عدم حسین کا ہے
تم جسے چاند چاند کہتے ہو
وہ تو نقشِ قدم حسین کا ہے
تو جو ” مصباح ” سب کا ہے محبوب
واقعی یہ کرم حسین کا ہے