کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین ذیل کے مسائل پر مستند و مدلل حوالات سے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ امام حسین کو صرف (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کہہ سکتے ہیں “علیہ السلام ” کہنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو درست نہیں
از طرف
معظم احمد قادری برکاتی نوری
امام موتی مسجد جھنڈا پیر سیاور کاسگنج یو پی (الہند)
موبائل ۔۔ 9084223227
☆☆☆ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ☆☆☆
الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
طالبِ علم کا کہنا درست نہیں ہے کیونکہ اہل بیت اطہار ، آل رسولِ مختار کو تو خود خداوند تعالیٰ نے سلام کیا ہے بندے کیا چیز ، دیکھیں پارہ 23 /سورۂ والصافات / رکوع 4 میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے “سلامٌ علیٰ اٰلِ یاسین ” یعنی آلِ یاسین پر سلام ہو اور یاسین سے پیارے آقا محمد عربی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ اقدس مراد ہے ۔ اب آپ سوال کریں گے کہ قرآن پاک میں تو صاف صاف “سلام علیٰ اِلْ یاسین” لکھا ہے ۔
تو ملاحظہ کریں!
علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ اپنی کتاب (تفسیر در منثور /جلد 5 /ص285 مطبوعہ مصر) میں تحریر فرماتے ہیں “سلام علیٰ اٰلِ یاسین”
اور علامہ فخرالدین رازی اپنی کتاب ۔(تفسیر کبیر جلد 7 / ص 161) میں بھی تحریر فرماتے ہیں “سلام علیٰ اٰلِ یاسین”
اور تفسیر فتح البیان جلد 8/ ص 77 /مطبوعہ مصر) میں بھی تحریر ہے “سلام علیٰ اٰلِ یاسین”
اور ان سب کا مطلب بھی آل محمد لکھا ہے۔ جیسے
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں ” قرء اٰخرون سلام علیٰ اٰل یاسین و ھی قرأۃ ابن مسعود رضی اللہ عنہ و قال اٰخرون سلام علی اٰل یاسین یعنی آل محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ” یعنی قرء اٰخرون نے سلام علی اٰل یاسین پڑھا ہے ۔ اور یہی قرأت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بھی ہے اور دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ سلام علی اٰل یاسین ہے یعنی آل محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلم ( تفسیر ابن کثیر جلد 8 / ص 203 / مطبوعہ مصر)
اور علامہ جلال الدین سیوطی نے لکھا ہے کہ جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آلِ یاسین سے مراد آل محمد ہیں(تفسیر در منثور جلد 5/ ص 286 /مطبوعہ مصر)
اور علامہ فخر الدین رازی نے لکھا ہے آل یاسین آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم یعنی آلِ یاسین حضرت محمد کی آل ہیں ۔(تفسیر کبیر جلد 7 / ص163)
اور جناب مولانا صدیق خاں صاحب نے لکھا ہے “المراد باٰل یاسین اٰل محمد صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم” یعنی آل یاسین سے مراد آلِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں (تفسیر فتح البیان جلد 8/ ص 77 / مطبوعہ مصر) اور بھی بہت سی کتابوں میں یہی مضمون ہے دیکھو علامہ ابوبکر کی کتاب (رشفۃ الصادی /ص 24 /مطبوعہ مصر) علامہ ابن حجر کی کتاب (صواعق محرقہ / ص 88 / مطبوعہ مصر) وغیرہ
مسعودی نے “مروج الذہب” میں بیان کیا ہے کہ حضرت امام حسن امام زین العابدین امام محمد باقر اور امام جعفر صادق رضی اللّٰہ عنہم کی قبروں کی جگہ میں ایک پتھر پاتے ہیں جس پر لکھا ہوا ہے کہ هَذَا قَبْرُ فَاطِمَۃِ بِنْتِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْہ وَسَلَّمَ سَيِّدَةِ نِّسَاءِ الْعَلَمِينَ وَقَبْرُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِي بْنِ حُسَيْنُ بْنِ عَلِى وَجَعْفَرُ بِنْ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِمُ التَّحِيَّةُ وَالسَّلامُ ۔ اس پتھر کا ظہور 330 ہجری میں ہوا ۔
اور اسی کو علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی اس طرح تحریر فرماتے ہیں “در موضع قبور امام حسن زین العابدین و محمد باقر و جعفر صادق سلام اللّٰهِ علیہم اجمعین سنگے یافتند بروے نوشتہ قبر فاطمہ بنت رسولؐ اللّٰہ سیدۃ النساء العالمین و قبر الحسن بن علی و علی بن الحسین بن علی و جعفر بن محمد علیہم التحیۃ والسلام” ۔ یعنی ” امام حسن و زین العابدین و محمد باقر و جعفر صادق علیہم السلام کی قبروں کی جگہ ایک پتھر پایا گیا جس پر لکھا تھا کہ یہ قبر ہے جناب فاطمہ دختر رسول اللّٰہ سیدۃ نساء العالمین اور قبر ہے حضرت حسن بن علی و علی بن حسین و محمد باقر جعفر بن محمد علیہم التحیۃ والسلام کی “(مدارج النبوۃ /جلد 2/ ص545)
اور شیخ الاجل حضرت علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے صاحبزادے حضرت علامہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں ۔ “بیان جواز “علیہ السلام” گفتن بہ علی مرتضی و سیدۃ النساء و حسنین رضی اللہ عنھم” (یعنی اس بات کے بیان میں کہ جناب علی مرتضیٰ و سیدۃ النساء اور امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنھم کو “علیہ السلام” کہنا جائز ہے) ۔(فتاویٰ عزیزی / جلد 1 /ص 234 / در مطبع مجتبائی واقع دہلی مطبوع شد)
حضرت علامہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اپنی کتابوں میں بہت سی جگہوں پر “حسین علیہ السلام” لکھا ہے ۔
علاوہ ازیں قرآن کریم کے بعد سب سے مستند کتاب صحیح البخاری میں امام بخاری نے متعدد جگہ “حسین علیہ السلام” لکھا ہے ۔ دیکھیں ! عن أنس بن مالك رضى اللّٰہ تعالى عنه أتي عبيد اللّٰہ بن زياد برأس الحسين بن علي عليہ السلام فجعل في طست فجعل ينكت ، وقال في حسنه شيئا ، فقال أنس كان أشبههم برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وكان مخضوبا بالوسمة (صحيح البخاري/كتاب فضائل الصحابة /رقم الحدیث 3538)
واضح ہو گیا کہ امام عالی مقام مولیٰ حسین علیہ السلام کو “علیہ السلام” کہنا جائز ہے ، علمائے متقدمین و متاخرین کا بھی اسی پر عمل رہا ہے ۔ امام عالی مقام کو “علیہ السلام” کہنے کے اور بھی بے شمار دلائل موجود ہیں ، بخوف طوالت یہاں اسی پر اکتفاء کیا جاتا ہے ۔
و اللہ ورسولہ اعلم باالصواب
کتبہ
محمد عمران کاظم مصباحی المداری مرادآبادی
خادم:- الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند
16/ اگست 2024 عیسوی مطابق 10/ صفر المظفر 1446 ہجری بروز جمعہ ۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
فقط سید نثار حسین جعفری المداری نادر مصباحی مکن پور شریف کان پور نگر یو پی الہند
خادم الافتاء : الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند ۔
↓ اس فتوے کو یہاں سے ڈؤنلوڈ کرسکتے ہیں ↓