تکلف سے گریزاں سادگی معلوم ہوتی ہے
یہ تعلیم حیات احمدی معلوم ہوتی ہے
حذف ریزوں میں بھی تابندگی معلوم ہوتی ہے
ارے یہ تو مدینے کی گلی معلوم ہوتی ہے
کچھ اس انداز سے عالم میں خورشید حرا چمکا
ہر اک ظلمت کدے میں روشنی معلوم ہوتی ہے
بجائے فرش مخمل فرش ہے ٹوٹی چٹائی کا
نرالی شان در بار نبی معلوم ہوتی ہے
سرایت کر گیا ہے سوز یوں قلب بلالی کا
اذاں میں آج بھی اک دلکشی معلوم ہوتی ہے
مئے حب نبی ہے مئے کشو کیا فکر بیش و کم
پیئے جاؤ جہاں تک تشنگی معلوم ہوتی ہے
یہ کہنا ہی پڑا جا کر قریب گنبد خضری
یہاں تو زندگی ہی زندگی معلوم ہوتی ہے
پہنچ پائے نہ اب تک گنبد خضری کیسائے میں
ادیب” اپنے جنوں ہی میں کمی معلوم ہوتی ہے