madaarimedia

حاجت نہیں ہے مجھ کو کسی تاجدار کی

 حاجت نہیں ہے مجھ کو کسی تاجدار کی

میرے لیے بہت ہے غلامی مدار کی


نسبت جو مل گئی ہمیں زندہ مدار کی

یہ تو عطائے خاص ہے پروردگار کی


تقدیر کہکشاں کی طرح جگمگا اٹھی

چومی ہے جب سے خاک تیرے رہگزار کی


ٹھوکر سے تو نے بخشی ہے مردوں کو زندگی

کیا بات ہے مدار تیرے اختیار کی


طوفان خود ہی کشتی کنارے لگا گیا

گونجی صدا فضاؤں میں جب دم مدار کی


اہل طلب کے واسطے ہوتی ہیں کیمیا

قطب المدار خاک تمہارے دیار کی


جس نے تمام عمر نہ کھایا نہ کچھ پیا

محضر عجیب شان ہے اس روزہ دار کی
—-

Read more

یہ کہکشاں مہ و اختر علی علی بولے

یہ کہکشاں مہ و اختر علی علی بولے
زمین کے سبھی منظر علی علی بولے

گئے جو عرش بری پر نبی نے یہ دیکھا
ہر ایک عرش کا منظر علی علی بولے

ہر ایک سلسلہ مولی علی سے ملتا ہے
سبھی ملنگ و قلندر علی علی بولے

ہے قاتلوں کی زباں پر نبی نبی کی صدا
نبیئ پاک کا بستر علی علی بولے

سبھی صحابہ ہیں خیبر کی فتح کے مشتاق
زبان حال سے خیبر علی علی بولے

وہ جس کے مولی ہیں اس کے علی بھی مولی ہیں
بلال و زید و ابوذر علی علی بولے

فرشتے مجھ سے سولات کی کریں بوچھار
تو اپنی قبر میں محضر علی علی بولے

   ——

زمیں غوث اعظم زمان غوث اعظم

 زمیں غوث اعظم زمان غوث اعظم

پکارے ہے سارا جہاں غوث اعظم


صدا جس نے دی ہے جہاں غوث اعظم

ہیں پہنچے مدد کو وہاں غوث اعظم


ہو کیا تیرا رتبہ بیاں غوث اعظم

ولایت کے ہو آسماں غوث اعظم


یہ سب انکی بندہ نوازی ہے ورنہ

کہاں مجھ سا عاصی کہاں غوث اعظم


جھکا دوں نہ کیوں میں جبین عقیدت

ملے جو تیرا آستاں غوث اعظم


جو راز حریم الہی ہے محضر

ہیں اس راز کے رازداں غوث اعظم
  ——

رتبہ ہے ریگزارو کا خواجہ کے شہر میں

 رتبہ ہے ریگزارو کا خواجہ کے شہر میں

سر خم ہے کو ہسارو کا خواجہ کے شہر میں


جن پر پڑا ہے عکس جمال محمدی

طالب ہوں ان نظارو کا خواجہ کے شہر میں


لٹتے مسرتوں کے خزانے ہیں اس لئے

مجمع ہے غم کے ماروں کا خواجہ کے شہر میں


دیوانے کے لہو سے ہیں کچھ خاص نسبتیں

یوں مرتبہ ہے خاروں کا خواجہ کے شہر میں


آتے ہیں بھیک لینے یہ نور و جمال کی

مرکز ہے چاند تاروں کا خواجہ کے شہر میں


دیوانے احترام سے پلکیں بچھائے ہیں

قبلہ ہے ہو شیاروں کا خواجہ کے شہر میں


محضر مدار ٹیکری سے دیکھئے ذرا

عالم ہے کیا نظاروں کا خواجہ کے شہر میں
  ——

صاحب سلسلہ غریب نواز

 صاحب سلسلہ غریب نواز

وجہ قرب خدا غریب نواز


نعمتیں معرفت کی پاتیں ہیں

آپ سے اولیاء غریب نواز


درسے اٹھ کے تیرے برستی ہے

رحمتوں کی گھٹا غریب نواز


آپ سے دیں کی روشنی پھیلی

نور شمس الضحی غریب نواز


دل کو دیتا ہے دولت تسکینں

آپ کا تذکرہ غریب نواز


ہم غریبوں پہ غم کے ماروں پہ

ہے کرم آپ کا غریب نواز


سیرت مصطفی کا پیکر ہے

آپ کی ہر ادا غریب نواز


سمت محضر بھی ہو نگاہ کرم

مونس بے نوا غریب نواز
  ——

کرم کن زندہ شاہ مدار کرم ہو ولیوں کے سردار

 ہر دکھیا ہر درد کے مارے کہ تمہی غمخوار

کرم کن زندہ شاہ مدار کرم ہو ولیوں کے سردار


کاش میرے دن ہوں ایسے کاش ہوں میری ایسی راتیں

ہر منظر میں آپ کے جلوے ہر محفل میں آپ کی باتیں

ہر اک غم ہر ایک خوشی میں کہیں یہ دل کے تار

کرم کن زندہ شاہ مدار کرم ہو ولیوں کے سردار


سامنے ہے سرکار کا روضہ زائرو تم کو اب کیا غم ہے

بٹتا ہے حسنین کا صدقہ زائرو تم کو اب کیا غم ہے

آؤ مل کر عرض کریں اب کھلنے کو ہے دربار

کرم کن زندہ شاہ مدار کرم ہو ولیوں کے سردار


ہم سارے ولیوں کی عظمت کرتے ہیں کرتے ہی رہیں گے

اور اپنے سرکار کی مدحت کرتے ہیں کرتے ہی رہیں گے

کہتی ہے کہتی ہی رہے گی دنیا بارم بار

کرم کن زنده شاه مدار کرم ہو ولیوں کے سردار


جلووں میں گم ہو جائیں گے دیکھ کے تیرا نوری پیکر

بس یہ تمنا ہے اے آقا بن جائے اپنا بھی مقدر

ہیں یہ گذارش لے کر آئے ہو تیرا دیدار

کرم کن زندہ شاہ مدار کرم ہو ولیوں کے سردا


کوئی کسی کو چاہے ہم تو تیری الفت کے مارے ہیں

ہم کو ترے دربار کے ذرے چاند ستاروں سے پیارے ہیں

اپنے قدم کی خاک بنالو محضر کو سرکار

کرم کن زندہ شاہ مدار کرم ہو ولیوں کے سردار
  ——

شمع امید خاموش سی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے

 شمع امید خاموش سی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے

میں مسافر ہوں تاریک شب کا ڈھونڈتا ہوں سحر کا اجالا

دیکھئے کب کرن پھوٹتی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے


جانے تقدیر میں کیا لکھا ہے ہر قدم اک نیا حادثہ ہے

جب مصیبت کوئی آپڑی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے


یوں تو کوئی نہیں ہے سہارا آسرا ہے چراغ حلب کا

جس نے دنیا کو دی روشنی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے


ہے انہیں پر مدار آخرت کا ہے انہیں کے سپرد اپنی دنیا

رہنمائی نہ کچھ رہبری ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے


ہوگا کب میری شب کا سویرا میرے دل میں ہے غم کا بسیرا

یاس ہے عالم بے کسی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے


ہر طرف نفسی نفسی کا عالم کوئی ہمدرد ہے اور نہ ہمدم

ہاں کچھ امید ہے تو یہی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے


میرا بیڑا بھنور میں پھنسا ہے اور بدظن میرا نا خدا ہے

اک عجب موڑ پر زندگی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے


زیست ہے یاس و آلام کا گھر سخت بے چین ہے قلب محضر
گردش وقت دشمن بنی ہے لو مدار جہاں سے لگی ہے
  ——

الله حق الله محمد صلی الله

 الله حق الله محمد صلی الله

علی ہیں ولیوں کے سردار دم دم زنده شاه مدار


ایک جگہ جو دیکھنا چاہو شاہی اور فقیری

فنصوری دربار سے دیکھو مسجد عالمگیری

آپ کا روضہ کتنا حسیں ہے اب تو دل قابو میں نہیں ہے

آئے زباں پر بارم بار الله حق الله محمد صلی الله


دل میں طلاطم آنکھوں میں آنسو آئے ہیں دیوانے

لو پھر عرس کا موسم آیا جھوم اٹھے مستانے

مستوں کی ہر سو بھیڑ لگی ہے آپکے نام کی دھوم مچی ہے

کھلا ہے داتا کا بھنڈار الله حق اللہ محمد صلی اللہ


قدم قدم رندوں کا جھرمٹ روش روش میخانے

ہر گوشے میں چھلک رہے ہیں ارغونی پیمانے

مستانے مخمور ہوئے ہیں رنج والم کافور ہوئے ہیں

دور ہوئے سارے آزار الله حق الله محمد صلی الله


کشتی ہے دربار میں آئی بھر لے اپنی جھولی

جمع ہے انسانوں کا سمندر آئی ملنگوں کی ٹولی

یہ کتنا پیارا منظر ہے وجد میں اب ہر ایک بشر ہے

عجب ہے داتا کا دربار الله حق اللہ محمد صلی الله


بجلی چمکے طوفاں آئیں نیا ڈگمگ ڈولے

لاکھ بلائیں آئیں پھر بھی دل محضر کا بولے

اس کو کیوں گرداب کا ڈر ہو جس کی زباں پر شام و سحر ہو

ذکر تمہارا شاه مدار الله حق الله محمد صلی الله
  ——

سر پہ مرادوں کی چادر ہے اور دلوں میں پیار او حلبی سرکار

 سر پہ مرادوں کی چادر ہے اور دلوں میں پیار

او حلبی سرکار – او حلبی سرکار

دیس سے ہم پردیس میں آئے دیکھن کو دربار

او حلبی سرکار – او حلبی سرکار


آپ سے دیں کا گلشن مہکا رات آئی البیلی

لکھنو شہ مینا سے چمکا شہ دانا سے بریلی

قطب غوری کی آمد سے جھوم اٹھا کولار


او حلبی سرکار – او حلبی سرکار


سید احمد اور محمد غوث پاک کے پیارے

رکن الدین حسن عربی ہیں بزم ولاء کے تارے

شمس الدین بھی مانگنے آئے ہیں فیض انوار


او حلبی سرکار – او حلبی سرکار


نسبت پاکے ناز ہیں کرتے جب مخدوم جہانی

خرقہ پاکے فخر نہ کیوں کرتے اشرف سمنانی

جن کی سرداری میں زمانہ آپ ان کے سردار


او حلبی سرکار – او حلبی سرکار


اجلی اجلی دھوپیں پھیلیں ٹھنڈے ٹھنڈے سایے

موسم گل اور ریت کے سینے پر ایسے لہرائے

اور امیدوں کی فصلوں پر رحمت کی بوچھار


او حلبی سرکار – او حلبی سرکار


دیوانوں کا رہتا ہے ہر دم چاروں اور ہجوم

اپنا ہو یا غیر نہیں ہے کوئی بھی محروم

اور خدا فیض جسے دے آتا ہے سوبار


او حلبی سرکار – او حلبی سرکار
  ——

حاضر ہیں سرکار ہم حاضر ہیں

 ہر جانب میلہ سا لگا ہے ہر کوئی مصروف دعا ہے

سب کی ایک پکار حاضر ہیں سرکار ہم حاضر ہیں


گلیوں گلیوں گھوم رہے ہیں آقا کے مستانے

کوئی ان کی چادر چومیں کوئی سر پر تان

کہنے کا انداز جدا ہے لیکن سب کی ایک صدا ہے

ہم تم پر بلہار حاضر ہیں سرکار ہم حاضر ہیں


ان کی سخاوت اللہ اللہ جو مانگیں سو پائیں

عالمگیر ادب سے آئیں دامن بھر لے جائیں

فیض ولایت جب بٹتا ہے دیکھ کے منکر بھی کہتا ہے

داتا شاہ مدار حاضر ہیں سرکار ہم حاضر ہیں


شیخ محمد لاہوری سا عشق کہاں ہے ممکن

گھر سے طواف خانہ کعبہ کرنے چلے تھے لیکن

دنیا کی آنکھوں نے دیکھا قطب جہاں کو جان کے کعبہ

گرد پھرے سوبار حاضر ہیں سرکار ہم حاضر ہیں


کس کو سنائیں اپنی بپتا کون مدد کو آئے

اپنا بھی اور بیگانہ بھی دیکھ ہمیں کترائے

دکھ کے بادل چھائے سر پر اور بلا منڈلائے سر پر

کوئی نہیں غمخوار حاضر ہیں سرکار ہم حاضر ہیں


سارے ساتھی مطلب کے ہیں کس سے لگائے آس

دنیا ہے اک ریت کا دریا کیسے بجھائے پیاس

آپ کا جب محضر کہلائے پھر کس کی چوکھٹ پر جائے

بیری ہے سنسار حاضر ہیں سرکار ہم حاضر ہیں
  ——

Top Categories