مشکلوں نے جو ستایا تو علی یاد آیا
جب کوئی کام نہ آیا تو علی یاد آیا
جب کبھی رنج کے طوفان نے گھیرا مجھ کو
غم نے جب حشر اٹھایا تو علی یاد آیا
جب کسی بھائی نے بھائی کی حمایت کے لیے
ہاتھ ہے اپنا اُٹھایا تو علی یاد آیا
بھوکا رہ کر جو یتیموں کو کسی زاہد نے
ہاتھ سے کھانا کھلایا تو علی یاد آیا
شامی دربار میں لہجے کو بدل کر جس دم
خطبہ زینب نے سنایا تو علی یاد آیا
میرے آقا نے سر عرش لبوں پر سب کے
نام حیدر کو جو پایا تو علی یاد آیا
ہاتھ میں لیکے جو تلوار سر کرب و بلا
رن میں شبیر جو آیا تو علی یاد آیا
ایک ہم ہی نہیں صدیق و عمر کو انظر
حرف اسلام پہ آیا تو علی یاد آیا