کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین ذیل کے مسائل پر مستند و مدلل حوالات سے ائمہ مساجد کو اجرت لینا دینا کا حوالہ اور دلیل مانگتا ہے اور رمضان کے ماہ میں تراویح کے نذرانے کو درست بتاتا ہے ۔
از طرف
معظم احمد قادری برکاتی نوری
امام موتی مسجد جھنڈا پیر سیاور کاسگنج یو پی (الہند)
موبائل ۔۔ 9084223227
☆☆☆ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ☆☆☆
الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
نماز پڑھانے ( یعنی امامت) ، اذان دینے اور تعلیمِ قرآن (قرآن سکھانے اورپڑھانے) کی اجرت لینے کو متأخرینِ احناف نے بوجۂ ضرورت جائز قرار دیا ہے ، بات یہ ہے کہ فقہائے متقدمین نے اس کو ناجائز قرار دیا تھا اور دین کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں کا وظیفہ بھی بیت المال سے مقرر تھا ، اس لیے یہ دینی امور منظم طریقے پر انجام ہوتے رہے ، لیکن جب بیت المال کا نظام باقی نہ رہا اور ان بنیادی امور میں بدنظمی اور بے ضابطگی کا احساس ہونے لگا توفقہائے متأخرین نے صرف اذان ، امامت اور تدریس کے لیے اجازت دی اور یہ اجازت دین کی آبیاری اور اس کی بقاء کے لیے ہے ، اگر کوئی شخص ان ہی طاعات میں اپنے آپ کو مشغول کرے تو اس شخص کے لیے اپنی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دیگر ذرائع معاش کو اپنانا مشکل ہو جاتا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر دیگر ذرائع معاش کو اپنائے گا تو پھر ان طاعات کو مستقل پابندی کے ساتھ بجالانا مشکل ہے تو ایسے حالات میں اگر فقہائے متقدمین کے فتویٰ پر عمل کرتے ہوئے ان طاعات پر اجرت لینے کو ناجائز قرار دیا جائے تو دین کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا تو بقائے دین کی خاطر فقہائے متاخرین نے یہ فتویٰ دیا کہ ایسے طاعات جن پر دین کی بقاء موقوف ہو ان پر اجرت لینا جائز ہے ، مثلاً امامت ، موذن، تدریس ، قضاء ، منصبِ افتاء ۔
(و) لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعليم القرآن والفقه)، ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان ۔(الدر المختار وحاشية ابن عابدين رد المحتار / ج 6 / ص 55 )
اور علامہ ابن عابدین شامی نے اپنی کتاب ” شرح العقود رسم المفتی مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند سہارنپور” کے صفحہ 62 تا 66 پر مسئلۃ الاستئجار علی الطاعات کے تحت بہت عمدہ بحث کی ہے ۔ دیکھیں “لكن جاء من بعدهم من المجتهدين الذین هم اهل التخريج والترجيح ، فافتوا بصحته على تعليم القرآن للضرورة فانه كان للمعلمين عطايا من بيت المال وانقطعت فلو لم يصح الاستئجار واخذ الاجرة لضاع القرآن، وفيه ضياع الدين لاحتياج المعلمين الى الاكتساب ۔ وافتى من بعدهم ايضا من امثالهم بصحته على الاذان والامامة لانها من شعائر الدين فصححوا الاستئجار عليهما للضرورة ايضا، فهذا ما افتى به المتأخرون عن ابي حنيفة واصحابه لعلمهم بان ابا حنيفة واصحابه لو كانوا في عصرهم لقالوا بذلك ورجعوا عن قولهم الاول” ۔
ترجمہ ” لیکن ان کے بعد آنے والے مجتہدین جو کہ اہل تخریج اور اہل ترجیح تھے انہوں نے ضرورت کی بناء پر تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز کہا ، اس لئے کہ ابتداً معلمینِ قرآن کو تعلیمِ قرآن پر بیت المال سے ہدایہ دیئے جاتے تھے جو کہ اب منقطع ہو چکے ہیں ، اگر تعلیم قرآن پر اجاره کو درست قرار نہ دیا جائے اور اس پر اجرت لینے کو جائز قرار نہ دیا جائے تو تعلیم قرآن کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ ہے ۔ پھر اس میں دین کے ضائع ہو جانے کا بھی اندیشہ ہے کیونکہ معلمین کو بھی اکتساب کی حاجت ہوتی ہے ، پھر ان کے بعد آنے والے علماء نے جو کہ خود بھی اہل ترجیح و تخریج ہیں انہوں نے اذان و امامت پر اجارہ درست ہونے کا فتویٰ دیا کیونکہ یہ دونوں امور بھی شعائر دین سے ہیں تو ضرورتاً ان دونوں کاموں پر اجارہ کرنا بھی ان حضرات نے درست قرار دیا ۔ یہ ہے وہ امر جس کے بارے میں متاخرین علماء نے امام اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم اور آپ کے اصحاب کے حوالے سے فتویٰ دیا کیونکہ یہ حضرات جانتے تھے کہ خود امام اعظم اور ان کے تلامذہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اس زمانے میں ہوتے تو یہی فتویٰ دیتے اور اپنے پہلے قول سے رجوع کر لیتے” ۔
(3)واضح ہو کہ رمضان المبارک میں تراویح دو طرح سے پڑھی جاتی ہیں اول یہ کہ تراویح بغیر قرآن کے (یعنی سورہ تراویح) ہوتی ہیں اس کا مسئلہ تو مندرجہ بالا امامت کے مسئلے میں گزر چکا ہے ۔ دوم یہ کہ تراویح بالقرآن ہوتی ہیں حافظِ قرآن تراویح میں قرآن پاک سناتے ہیں اور مقتدی سنتے ہیں ، حالانکہ قرآن سننا اور سنانا بڑی فضیلت اور اجر وثواب کا باعث ہے ۔
لیکن محض تلاوت قرآن مجید پر استئجارہ جائز نہیں ۔ “فإن المفتى به صحة الاستئجار على تعليم القرآن ، لاعلى تلاوته” ،
البتہ اگر حافظِ قران کو رمضان المبارک کے لیے نائب امام بنادیا جائے اور اس کے ذمہ ایک یا دو نمازیں سپرد کردی جائیں اور اس خدمت کے عوض تنخواہ کے عنوان سے اسے کچھ دے دیا جائے (خواہ وہ زیاہ دہو یا کم) تو اس کے لینے اور دینے کی گنجائش ہوگی۔ یا قرآن سنانے والے کو بغیر استئجارہ صرف بطور ہدیہ کچھ رقم و تحائف و عیدی وغیرہ دیے جائیں تو اس میں بھی گنجائش ہے ۔
ورنہ تو حدیث پاک میں ہے “جس نے قرآن پڑھا اور اس کے ساتھ کھایا (یعنی استئجارہ کیا) وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا چہرہ ہڈی کا ڈھانچہ ہو گا جس پر گوشت نہیں ہوگا” ۔
“عن (زاذان) قال: سمعته يقول: من قرأ القرآن يأكل به جاء يوم القيامة ووجهه عظم ليس عليه لحم.”.(مصنف ابن أبي شيبه، كتاب الصلاة، باب في الرجل يقوم بالناس في رمضان فيعطى ، / ج 2 / ص 168 / طباعت مكتبة العلوم والحكم المدينة المنورة)
و اللہ ورسولہ اعلم باالصواب
کتبہ
محمد عمران کاظم مصباحی المداری مرادآبادی
خادم:- الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند
16/ اگست 2024 عیسوی مطابق 10/ صفر المظفر 1446 ہجری بروز جمعہ ۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
فقط سید نثار حسین جعفری المداری نادر مصباحی مکن پور شریف کان پور نگر یو پی الہند
خادم الافتاء : الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند ۔
↓ اس فتوے کو یہاں سے ڈؤنلوڈ کرسکتے ہیں ↓