سبط نبی سے چھوٹ رہا ہے نانا کا دربار
یہ کیسا منظر ہے یہ کیسا منظر ہے
سونی ہیں طیبہ کی فضائیں سناٹا ہے چھایا
ہر دل پہ چھائی ہے اداسی ہر چہرا مر جھایا
لگتا ہے جیسے روٹھ گئے ہوں خضرا سے انوار
یہ کیسا منظر ہے یہ کیسا منظر ہے
فوج عدو نے بند کیا ہے جن پر دانہ پانی
ان کے ہی صدقے ملتی ہیں سبکو نعمات ربانی
تسنیم و کوثر زم زم کے ہیں یہی ورثہ دار
یہ کیسا منظر ہے یہ کیسا منظر ہے
جسکے گلے کو چوما تھا اکثر محبوب داور نے
جس پہ لٹائے ممتا کے گل زہرا و حیدر نے
ہر جانب سے ہوتے ہیں اس پر تیغ و تبر کے وار
یہ کیسا منظر ہے یہ کیسا منظر ہے
پیاسی بھتیجی کا چہرا جب آنکھوں میں لہرایا
چلو بھرا دریا سے لیکن منھ سے نہیں لگایا
دکھلائی عباس نے کیسی تصویر ایثار
یہ کیسا منظر ہے یہ کیسا منظر ہے
ہر جانب ہے گھور اندھیرا اور سونا جنگل ہے
درد جدائی کی شدت سے وہ بیکل بیکل ہے
ڈھونڈھ رہی ہے بالی سکینہ اپنے چچا کا پیار
یہ کیسا منظر ہے یہ کیسا منظر ہے
شیر خدا کے شیر کے غم میں ڈوب گئی ہے ترائی
کٹ گئے ہیں عباس کے باز و جان لبوں پر آئی
بولے یہ شہ اک بار تو مجھ کو بھائی تو کہہ کے پکار
یہ کیسا منظر ہے یہ کیسا منظر ہے
اہلِ حرم کا حال نہ پوچھو کس درجہ ہیں مضطر
کانوں سے در چھین لیئے ہیں اور سروں سے چادر
بیڑیاں پہنے ہے پاؤں میں کیسے چلے بیمار
یہ کیسا منظر یہ ہے یہ کیسا منظر ہے
جب بھی کبھی ” مصباح ” نے کربل کا قصہ ہے سنایا
غم سے ہر اک آنکھ ہے بھیگی اور ہر دل بھر آیا
آل نبی کے عشق میں بولے سارے تعزیہ دار
یہ کیسا منظر ہے یہ کیسا منظر ہے