madaarimedia

لٹ گیا باغ علی مرتضی پردیس میں

 لٹ گیا باغ علی مرتضی پردیس میں

چھن گئی زینب کے سر سے بھی ردا پردیس میں


اس لئے ہے پانی پانی شرم سے نہر فرات

پیاس سے بیتاب ہے آل عبا پردیس میں


قافلہ سالار جس کا مالک کونین ہے

بے کس و مجبور ہے وہ قافلہ پردیس میں


کیا ہے مفہوم عبادت یہ سمجھ میں آگیا

زیر خنجر شہ نے جب سجدہ کیا پردیس میں


دیکھتی ہی رہ گئی صغری غبار کارواں

دیس سے جس دم چلا ہے قافلہ پردیس میں


ان گنت تھی کربلا میں کوفی و شامی سپاه

اہل بیت پاک کا کوئی نہ تھا پردیس میں


امت احمد پہ یہ احسان ہے شبیر کا

دیں بچایا اپنا کٹوا کر گلا پردیس میں


فرض کا احساس بھائی کی وصیت کا خیال

اور تنہا زینب حرما زده پردیس میں


آگیا جس دم نظر محضر محرم کا ہلال

پھر کسی لمحہ نہ میرا دل لگا پردیس میں
  ——

—–

Leave a Comment

Related Post

Top Categories