خلیفۂ پنجم امیرالمؤمنین حضورسیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیات و خدمات
ولادت اور نسب
سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت 15 رمضان المبارک 3 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کے سبط اکبر، خلیفۂ چہارم حضور امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ارجمند اور خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نور نظر ولخت جگر اور سلسلۂ خلافت نبوت کی پانچویں کڑی تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:
الحسن بن علي بن أبي طالب بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف القرشي الهاشمي۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چہرۂ مبارک رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم سے بے حد مشابہ تھا، جیسا کہ سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
“أَشْبَهُ النَّاسِ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَىٰ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ”
(سنن الترمذي، حديث: 3779۔ حیدری)
نام رکھنے کی وجہ تسمیہ
جب سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا نام “حرب” رکھنے کا ارادہ کیا، مگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:
“لا، بل هو حسن”
(مسند أحمد، حديث: 17152۔حیدری) یہ نام اللہ تعالیٰ کے حکم سے رکھا گیا، کیونکہ اس سے پہلے کسی کا نام “حسن” نہ رکھا گیا تھا۔
سیرت و اوصاف عادات و خصائل
سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اخلاق و کرم، سخاوت، حلم، شجاعت اور علم میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت عابد و زاہد، متواضع اور فیاض طبیعت کے ما تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایا:
“اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ، فَأَحِبَّهُ، وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ”
(صحيح البخاري، حديث: 3749)
ترجمہ: اے اللہ! میں حسن سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت فرما، اور جو اس سے محبت کرے، اس سے بھی محبت فرما۔
زہد و عبادت
امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ دنیاوی رغبتوں سے بے نیاز تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سخاوت کا عالم یہ تھا کہ اپنی کل دولت تین مرتبہ راہِ خدا میں تقسیم کر دی۔
امام ابن سعد رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
“كَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَىٰ عَنْهُ مِنَ الزُّهَّادِ فِي الدُّنْيَا، وَكَانَ يُقَسِّمُ مَالَهُ كُلَّهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ”
(الطبقات الكبرى لابن سعد، ج: 5، ص: 22)
فضائل ومناقب
خلیفۂ پنجم حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات گرامی بے شمار فضائل و مناقب کی حامل ہے۔ آپ کو کئی ایسے منفرد خصائص حاصل ہیں جو کسی اور کو نصیب نہ ہوئے ذیل میں کچھ فضائل ومناقب درج کیئے جارہے ہیں
جنتی نوجوانوں کے سردار
حدیث پاک:
الحَسَنُ وَالحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الجَنَّةِ.
(ترمذی، حدیث: 3768، ابن ماجہ: 118.حیدری)
ترجمہ:
“حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔”
یہ فضیلت کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی کہ آپ رضی اللہ عنہ کو جنتی نوجوانوں کا سردار قرار دیا گیا
نبی کریم ﷺ کے مشابہ چہرہ
حدیث مقدسہ
اللَّهُمَّ أَحْبِبْهُ فَإِنَّهُ أَشْبَهُ بِي خُلُقًا وَخَلْقًا.
(مسند احمد، حدیث: 16230، بخاری، حدیث: 3542۔حیدری)
ترجمہ:
“اے اللہ! اسے محبوب رکھ، کیونکہ یہ مجھ سے اخلاق اور صورت میں مشابہت رکھتا ہے۔”
یہ منفرد فضیلت حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے کہ آپ نبی کریم ﷺ کے مشابہ تھے۔
نبی کریم ﷺ کی طرف سے صلح کا پیش گوئی شدہ کردار
حدیث پاک
إِنَّ ٱبْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ ٱللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ.
(بخاری، حدیث: 3746۔حیدری)
ترجمہ:
“میرا یہ بیٹا سردار ہے، اور عنقریب اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔”
یہی وجہ ہے کہ آپ نے خلافت سے دستبردار ہو کر امت میں خونریزی کو روکا۔
آپ کا حلم و بردباری
حدیث شریف
مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَحْلَمَ مِنَ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ.
(ابن سعد، الطبقات الكبرى، 5/22 حیدری)
ترجمہ:
“میں نے حسن بن علی سے زیادہ بردبار کسی کو نہیں دیکھا۔”
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بے مثال صبر، حلم اور حکمت عطا کی گئی تھی۔
آپ کی سخاوت اور کرم نوازی
روایت
أَنَّ ٱلْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ قَاسَمَ مَالَهُ مَرَّتَيْنِ وَتَصَدَّقَ بِجَمِيعِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ.
(احیاء علوم الدین، 3/274۔ حیدری)
ترجمہ:
“حضرت حسن بن علی نے دو بار اپنا پورا مال آدھا کر کے تقسیم کیا اور تین بار سارا مال اللہ کی راہ میں دے دیا۔”
یہ سخاوت آپ کو سب سے منفرد بناتی ہے۔
آپ کی عبادت اور زہد
روایت
كَانَ ٱلْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِذَا تَوَضَّأَ ٱرْتَعَدَ وَإِذَا ذَكَرَ ٱللَّهَ بَكَى.
(ابن عساکر، تاریخ دمشق، 13/73۔حیدری)
ترجمہ:
“جب حضرت حسن وضو کرتے تو کپکپانے لگتے اور جب اللہ کو یاد کرتے تو رونے لگتے۔”
یہ آپ کے تقویٰ اور اللہ سے تعلق کی ایک منفرد دلیل ہے۔
سب سے زیادہ خوبصورت شخصیت
روایت حدیث:
كَانَ ٱلْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ أَشَدَّ ٱلنَّاسِ وُجُوهًا وَأَحْسَنَهُمْ خُلُقًا.
(الاستیعاب، ابن عبدالبر، 1/381۔حیدری)
ترجمہ:
“حضرت حسن بن علی سب سے زیادہ خوبصورت چہرے والے اور بہترین اخلاق والے تھے۔”
آپ کی شفاعت قیامت کے دن
روایت
إِنَّ ٱلْحَسَنَ وَٱلْحُسَيْنَ يَشْفَعَانِ يَوْمَ ٱلْقِيَامَةِ.
(ابن عساکر، تاریخ دمشق ۔ حیدری)
ترجمہ:
“بے شک حسن اور حسین قیامت کے دن شفاعت کریں گے۔”
نبی کریم ﷺ کے پھول
حدیث
الحَسَنُ وَالحُسَيْنُ رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا.
(بخاری، حدیث: 3753، مسلم، حدیث: 2421۔حیدری)
ترجمہ:
“حسن اور حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔”
یہ نبی کریم ﷺ کی بے پناہ محبت کا اظہار ہے جو آپ کو خصوصی طور پر حاصل ہوا۔
آپ کی محبوبیت کبریٰ
حدیث مبارکہ
إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبُّوهُمَا.
(ترمذی، حدیث: 3706)
ترجمہ:
“بے شک میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تم بھی ان سے محبت کرو۔”
نبی کریم ﷺ کی یہ دعا آپ کی محبوبیت کبریٰ اور شان کی دلیل ہے۔
جنگوں میں شرکت
جنگ جمل و صفین
سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ شرکت کی۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس وقت نصیحت فرمائی:
“يَا بُنَيَّ، كُنْ مَعَ الْحَقِّ، وَإِنْ كَانَ ضِدَّكَ”
(نهج البلاغة، خطبة: 200)
ترجمہ: اے بیٹے! ہمیشہ حق کے ساتھ رہنا، چاہے وہ تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت معاویہ ابن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح
وجہ صلح
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد 40 ہجری میں امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلافت پر فائز ہوئے۔ مگر کچھ عرصے بعد حضرت معاویہ ابن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے اور جنگ کا امکان پیدا ہوگیا۔
امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
“إِنِّي رَأَيْتُ أَنَّ حَقْنَ الدِّمَاءِ أَفْضَلُ مِنَ الْقِتَالِ”۔
(تاريخ الإسلام للذهبي، ج: 2، ص: 47۔حیدری)
ترجمہ: میں نے دیکھا کہ خونریزی کو روکنا جنگ سے بہتر ہے۔
صلح کے شرائط
1. حضرت معاویہ قرآن و سنت کے مطابق حکومت کریں گے
2. حضرت معاویہ اپنے بعد کسی کو ولی عہد مقرر نہیں کریں گے
3. اہلِ مدینہ اور اہلِ کوفہ پر ظلم و زیادتی نہیں کی جائے گی
4. امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اہل بیت کا احترام کیا جائے گا
حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے اس صلح کے متعلق فرمایا:
“إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ”
(صحيح البخاري، حديث: 3746۔حیدری)
ترجمہ: میرا یہ بیٹا سردار ہے، اور شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کروا دے۔
شہادت
زہر دیے جانے کا واقعہ
50 ہجری میں آپ کو زہر دیا گیا۔ روایات کے مطابق یہ زہر آپ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث کے ذریعے دیا گیا، جسے بنی امیہ کے بعض افراد نے ورغلایا تھا۔
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“مَاتَ بِسُمٍّ دَسَّهُ لَهُ بَعْضُ أَعْدَائِهِ”
(الاستيعاب، ج: 1، ص: 384۔حیدری)
ترجمہ: آپ کو زہر دیا گیا جو آپ کے دشمنوں میں سے کسی نے سازش کے تحت دیا۔
وصال شریف اور تدفین
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 28 صفر 50 ہجری کو مدینہ طیبہ میں وصال فرما گئے اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔